زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے


Zindagi apni jab is shakal sy guzri ghalib
hum bhi kia yad karain gy keh khuda rakhte thy


عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی - مرزا غالب

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
قطع کیجے نہ تعلّق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبّت ہی سہی
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
عمر ہر چند کہ ہے برق خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی
کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
یار سے چھیڑ چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی

درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے - مرزا غالب

درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ
تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے
کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال
دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے
عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے
زہر لگتی ہے مجھے آب و ہواۓ زندگی
یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے
گل فشانی ہاۓ نازِ جلوہ کو کیا ہو گیا
خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے
شرمِ رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے
خاک میں ناموسِ پیمانِ محبّت مل گئی
اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسمِ یاری ہائے ہائے
ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا
دل پہ اک لگنے نہ پایا زخمِ کاری ہائے ہائے
کس طرح کاٹے کوئی شب‌ہاۓ تارِ برشکال
ہے نظر خو کردۂ اختر شماری ہائے ہائے
گوش مہجورِ پیام و چشم محرومِ جمال
ایک دل تِس پر یہ نا امّیدواری ہائے ہائے
عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ہائے ہائے

بہت فرسودہ لگتے ہیں مجھے اب پیار کے قصے

بہت فرسودہ لگتے ہیں مجھے اب پیار کے قصے
گل و گلزار کی باتیں،،،،، لب و رخسار کے قصے
یہاں سب کے مقدر میں،، فقط زخمِ جدائی ہے
سبھی جھوٹے فسانے ہیں وصالِ یار کے قصے
بھلا عشق و محبت سے کسی کا پیٹ بھرتا ہے
سنو تم کو سناتا ہوں،،، میں کاروبار کے قصے
ميرے احباب کہتے ہیں یہی اک عیب ہے مجھ میں
سرِ دیوار لکھتا ہوں،،،،،،،،،،،، پسِ دیوار کے قصے
کہانی قیس و لیلیٰ کی بہت ہی خوب ہے لیکن
ميرے دل کو لبھاتے ہیں، رسن و دار کے قصے
میں کیسے خون روتا ہوں وطن کی داستانوں پر
کبھی تم بھی تو سُن جاؤ، ميرے آزار کے قصے
شعیب اکثر میں لوگوں سے اسی کارن نہیں ملتا
وہی بے کار کی باتیں،،،،،، وہی بے کار کے قصے